کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 73
گا۔
اس حدیث کے مطابق اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر شک کیا کہ اگر اسے راکھ بنا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہیں کر پائے گا، حالانکہ تمام مسلمانوں کے مطابق یہ کفر ہے، لیکن چونکہ وہ شخص جاہل تھا،اسے علم نہیں تھا اور ساتھ میں اللہ کی پکڑ کا ڈر بھی تھا تو اس ڈر کی وجہ سے اسے معاف کر دیا گیا، اس لیے ایسے مجتہدین جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور اسی اتباع کے لیے کچھ نصوص کی تاویل بھی کر جاتے ہیں،ان مجتہدین کا معافی پر اس شخص سے زیادہ حق بنتا ہے"[1]
یہ اہل سنت و الجماعت کا وعید سے متعلق اصول ہے، اہل سنت کا یہ موقف دیگر خوارج جیسے وعیدی،بدعتی گروہوں کے موقف سے الگ ہے۔
یہ بات بھی یقینی ہے کہ حاکم ایسے شبہات اور تاویلات میں پڑ سکتا ہے جو دیگر لوگوں کے سامنے پیش نہ آئیں ؛ کیونکہ ممکن ہے کہ حاکم کے حاشیہ نشین علمائے سوء ہوں،حاکم کے آس پاس کے لوگ باطل امور کو اچھا بنا کر دکھائیں،غلط چیز کے جائز ہونے کی تاویل پیش کریں،اور حاکم ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے پیچھے لگ جائے، ایسے واقعات صرف ہمارے دور میں ہی نہیں بلکہ ہر دور میں ہوتے رہے ہیں،اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔
بسا اوقات حکمران کو عوام کے مقابلے میں شرعی علوم سے زیادہ واقفیت نہیں ہوتی ؛ کیونکہ حکمران ملکی امور میں مصروف ہوتا ہے اور عام طور پر خیر خواہ لوگ بھی ان کے آس پاس نہیں ہوتے خصوصاً آج کل کے زمانے میں ۔
تو اس لیے کسی عامی شخص پر کفر کا حکم لگانے کے لیے جتنی چھان بین کی ضرورت ہوتی ہے حکمران پر کفر کا حکم لگانے کے لیے اس سے کہیں زیادہ چھان بین کی ضرورت ہوتی ہے۔
[1] مجموع الفتاوی (3؍231)