کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 72
دوم:فاعل کے لیے شرط: کفریہ کام کرتے ہوئے حکمران کوئی تاویل،مجبوری یا شبہ کا شکار نہ ہو، جس کی وجہ سے حکمران پر وعید والی نصوص لاگو نہ ہو، اس بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ [الإسراء:15] ’’اور ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک [ان کی جانب]رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : " تکفیر کا تعلق بھی وعید سے ہے، کفریہ فعل اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو جھٹلانے سے تعلق رکھے،تو ایسا ممکن ہے کہ یہ شخص نو مسلم ہو، یا اس کی پرورش علم و عرفان سے دور کسی دیہات میں ہوئی ہو، تو ایسی صورت میں اس شخص پر کفر کا حکم اس وقت نہیں لگے گا جب تک اس پر حجت قائم نہیں ہو جاتی؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اس نے اس بارے میں قرآن و سنت کے احکام نہ سنے ہوں،یا سنے تو ہوں لیکن اس کے ہاں پایہ ثبوت تک نہ پہنچے ہوں،یا اس کے ذہن میں کوئی تعارض پیدا ہو گیا ہو جس کی وجہ سے اس نے ان نصوص کی تاویل کر دی چاہے ان تمام امور میں وہ غلطی پر بھی ہو پھر بھی اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا۔ میں اسی لیے ہر وقت بخاری و مسلم کی اس حدیث کو ذہن میں رکھتا ہوں جس میں ایک شخص نے کہا تھا: "میں جب مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، میری راکھ بنا کر مجھے پانی میں بہا دینا؛ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جہانوں میں کسی کو اتنا سخت عذاب نہیں دیا ہو گا" اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس شخص نے جواب دیا: اللہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے