کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 68
کے علم میں آ جاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذکر سکتے ہیں ۔‘‘
سعدی رحمہ الله اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
"یہاں ایک تربیتی اصول بیان کیا گیا ہے کہ جس وقت کسی معاملے میں بحث و تکرار ہو جائے تو پھر فیصلے کے لیے اس شخص سے رجوع کریں جو معاملہ فہمی مکمل دسترس رکھتا ہو اور اس میں متخصص ہو، پھر اس کی بات کو رد نہ کیا جائے؛ کیونکہ اس کی رائے صحیح موقف کے زیادہ قریب ہو گی اور اس میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو گا"[1]
لہٰذا علمائے کرام کی آرا پر نکتہ چینی اور ان کے بارے میں زبان درازی سے ہر ممکن اجتناب کریں،ان کے فہم کو یکسر مسترد مت کریں،انہیں زمینی حقائق سے نابلد ہونے یا درباری ملا ہونے کا طعنہ مت دیں،انہیں یہ مت کہیں کہ علماء کا تیر و تفنگ اور سیاست سے کیا تعلق،یا اسی طرح کی اور بھی بہت سی باتیں اہل علم کے بارے میں کہی جا رہی ہیں بلکہ زمانے سے کہی جاتی رہی ہیں ۔
چنانچہ البانی رحمہ الله کہتے ہیں :
"حکمران کے خلاف بغاوت میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں اس پر شرعی نصوص کی بھر مار ہے نیز نو عمر چھوکروں کے کرتوتوں سے رونما ہونے والے تاریخی واقعات بھی اس کے شاہد عدل ہیں ۔ لیکن اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ علمائے کرام کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ان کے حقوق پامال کئے جائیں،ان کے صرف وہی فتوے مانیں جائیں جو متشدد تحریکوں کے مطابق ہوں،سیاست میں علمائے کرام کا کردار مسخ کیا جائے، انہیں "وضو اور طہارت کے مسائل جاننے والے عالم" کہہ کر طعنہ دیا جائے، بدعتی لوگ نسل در نسل علمائے کرام
[1] تفسیر سعدی