کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 67
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ خارجیوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں : "ان کی گمراہی کی بنیاد ائمہ کرام اور مسلمانوں کے بارے میں اس نظریہ پر تھی کہ تمام مسلمان عدل سے دور اور گمراہ ہیں،یہی بنیاد رافضیوں اور دیگر اہل سنت کے مخالفین کے نظریات کی ہوتی ہے، خارجی جس چیز کو ظلم سمجھتے ہیں وہ ان کے ہاں کفر ہوتا ہے، پھر کفر پر خود ساختہ احکام لاگو کرتے ہیں،تو رافضیوں اور خارجیوں کے مسلمانوں پر حکم لگانے کے یہ تین مراحل ہیں "[1] جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ جن علمائے کرام کے فہم کو معتبر سمجھنے کے لیے امت متفق ہو، روئے زمین پر اللہ تعالیٰ ان کی مقبولیت پھیلا دے، ان کے اساتذہ کرام بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں،پھر علمائے کرام نے بھی ان کے بارے میں تزکیہ دے رکھا ہو کہ وہ فتوی دینے کے اہل ہیں،تو ایسے اہل علم کی بات کو لازمی پکڑنا، شرعی اور عقلی ہر دو اعتبار سے ضروری ہے، جبکہ جدید اور حساس مسائل میں ان کے فہم کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَسْـَٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [النحل: 43] ’’اگر تمہیں علم نہ ہو تو جاننے والوں سے پوچھ لو۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿ وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ ﴾ [النساء: 83] ’’اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں
[1] مجموع الفتاوی (28؍497)