کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 66
البتہ ان کے نظریات پھر بھی باقی رہے، اور علی کو قتل کرنے کی سازشیں جاری رکھیں اور اپنے اس مذموم ہدف کو پانے کامیاب ہوگئے،اور -نعوذ باللہ- انہوں نے آپ کے قتل کو اللہ کی عبادت قرار دیا۔
سیدنا ابن عباس اس مسئلے کی نزاکت کو بھانپ چکے تھے، انہیں اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ خارجی فتنے کی اصل گرہ یہ ہے کہ خارجی علمائے کرام کے فہم پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس وقت علمائے کرام صحابہ کی شکل میں تھے، چنانچہ سیدنا ابن عباس نے ان سے بات چیت اور مناظرے کے دوران کہا تھا:
"میں تمہارے پاس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی جانب سے آیا ہوں،میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد کی طرف آیا ہوں،اور چونکہ جب قرآن مجید نازل ہوتا تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوتے تھے اس لیے ان کے پاس قرآن مجید کا علم تم سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ تمہارے موقف پر صحابہ کرام میں سے کوئی بھی نہیں ہے"[1]
تو ابن عباس نے انہیں راہِ ہدایت پر لانے کے لیے گمراہی کی اصل بنیاد بتلائی،یہ بھی کہا کہ جن کی مخالفت تم کر رہے ہو وہ تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ان کا علم تم سے کہیں زیادہ ہے، پھر آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انہی کے فہم پر چلنا لازمی اور ضروری ہے۔
چونکہ خارجی فکر اسلام میں رونما ہونے والی سب سے پہلے منحرف فکر ہے، اور اس کی بنیاد اہل علم کے خلاف زبان درازی اور ان کے فہم کو معیار نہ بنانے پر تھی تو بعد میں رونما ہونے والی جتنی بھی بدعات تھیں سب میں یہی چیز مشترکہ طور پر پائی گئی، اس کے لیے آپ رافضیت کو دیکھ لیں یا اعتزال یا کسی بھی منحرف فکر کو پرکھ لیں،یہی اس کی بنیاد ہو گی۔
[1] حاکم نے اسے مستدرک (2؍150)میں اور بیہقی نے سنن کبری (8؍309) میں روایت کیا ہے۔