کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 63
بھی ان کی مسلح بغاوت لائق تحسین عمل نہیں،اسی طرح واقعہ حرّہ میں بھی علم و عمل کے پیکر افراد شامل تھے، ابن اشعث کے ساتھی بھی دیندار اور اہل علم تھے، لیکن ان سب کا یہ عمل قابل تعریف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے۔"[1] اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک اہم ترین اصول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : "اس مسئلے میں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ: علم و عمل اور اعلی دیندار شخص چاہے اس کا تعلق صحابہ کرام، تابعین عظام، اہل بیت یا قیامت تک آنے والے نیک لوگوں میں سے ہو، بسا اوقات ان سے بھی اجتہادی غلطی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے غیر مناسب نتائج سامنے آتے ہیں تو ایسی صورت میں ان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے متقی ولیوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ، نیز ایسی صورت حال پیدا ہو بھی جائے تو یہ دو قسم کے لوگوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہے: 1۔ وہ لوگ جو ان کے اس عمل کو درست قرار دینے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لیے ابھارتے ہیں ۔ 2۔ وہ لوگ جو اس نیک آدمی کی مذمت کرتے ہیں جن سے ان کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے، بلکہ ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائے گا، کبھی معاملہ ان کو دائرہ ایمان سے باہر نکالنے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ غلط راستے پر ہیں "[2] دوسری وجہ: یہ بات بہت سے اہل علم سے ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع کی یا شروع کرنے ہی والے تھے کہ انہیں سمجھ آ گئی اور اپنے موقف سے
[1] فتح الباری (7؍565) [2] کویتی فقہی موسوعہ، ناشر: وزارتِ اوقات کویت، مصطلح: اہل حل و عقد۔