کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 60
پر یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکا تھا، اسی طرح حسن بصری اور مجاہد وغیرہ نے لوگوں کو اشعث کے ساتھ مل کر حجاج کے خلاف بغاوت سے روکا تھا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "بغاوت کے لیے لڑنے سے فاضل ترین مسلمان روکتے چلے آئے ہیں،جیسے کہ عبد اللہ بن عمر،سعید بن مسیب رحمہ اللہ،علی بن حسین رحمہ اللہ اور دیگر نامور اہل علم حرّہ کے واقعہ کے وقت یزید کے خلاف بغاوت سے روکتے رہے، اسی طرح حسن بصری اور مجاہد وغیرہ ابن اشعث رحمہم اللہ کے ساتھ حجاج کے خلاف بغاوت کرنے پر منع کرتے رہے۔ لہٰذا اہل سنت کا یہ موقف آخر کار پختہ ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح اور ثابت شدہ احادیث کی بنا پر فتنوں میں ہتھیار اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے، چنانچہ اہل سنت یہ بات اپنے عقائد کی کتابوں میں ذکر کرنے لگے اور حکمرانوں کے ظلم پر صبر کرنے کی تلقین کرنے لگے کہ ان کے خلاف مسلح مزاحمت نہ کی جائے، اگرچہ پھر بھی اہل علم اور دیندار لوگوں کی بڑی تعداد اس میں ملوّث رہی ہے۔"[1] لہٰذا اگر کسی امتی کی بات یا عمل حجت ہے تو پھر جنہوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے روکا اور اسے حرام قرار دیا ہے ان کی بات اور عمل حجت بننے کے زیادہ قابل ہیں ؛ کیونکہ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور ان کا علم بھی،بلکہ ان کے موقف کی تائید میں تو بیش بہا احادیث ہیں جن میں ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ ٭٭٭
[1] منہاج السنہ (4؍529)