کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 59
کی خرابیاں اور زبان درازیاں ذکر کرتے ہوئے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو"[1]
حجاج کے معاملے میں اُبّی رحمہ اللہ قاضی عیاض رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ:
"حجاج کے خلاف تابعین کی کثیر تعداد اور ابتدائی دور کی عظیم شخصیات نے جو بغاوت کی تھی اس کے متعلق جمہور یہ جواب دیتے ہیں کہ : حجاج کے خلاف بغاوت محض فسق و فجور کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ حجاج کی جانب سے شرعی اصولوں کی تبدیلی،اعلانیہ کفر کیا اور آزاد لوگوں کی بیعت تبدیل کی، خلیفہِ وقت کو -نعوذ باللہ- نبی سے زیادہ فوقیت دی، اس بارے میں اس کا مشہور مقولہ ہے۔‘‘
آگے چل کر اُبّی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’جس وقت حجاج عبد الملک بن مراون کی جانب سے عراق اور سارے مشرقی علاقے کا گورنر تھا تو اس کے خلاف ہونے والی بغاوت اس وجہ سے تھی کہ حجاج نے شرعی احکامات تبدیل کیے، اعلانیہ کفر کیا،خلیفہ کو حد سے زیادہ فوقیت دی۔ اس کے بعد اُبّی رحمہ اللہ نے حجاج کے قابل گرفت اقوال ذکر کیے۔"[2]
چوتھی وجہ: جن اہل علم اور دیندار افراد سے بغاوت ثابت ہے ان کا مقارنہ اور موازنہ ان اہل علم سے کیا جائے گا جنہوں نے بغاوت کرنے سے روکا اور خبردار کیا، ان کا مقام و مرتبہ اسلام میں انتہائی بلند ہے؛ کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ احادیث کو دلیل بنایا تھا، جیسے کہ ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے سیدنا حسین کو یزید کے خلاف نکلنے سے منع فرمایا تھا۔[3]
اسی طرح ابن عمر[4]اور نعمان بن بشیر نے بھی اہل مدینہ کو حرّہ [5]کے موقع
[1] البدایہ و النھایہ (9؍132)
[2] شرح مسلم از اُبّی (5؍180)
[3] تاریخ طبری اور ابن کثیر وغیرہ نے اسے ذکر کیا ہے۔
[4] بخاری: (7111) میں ہے کہ نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں: جس وقت اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے اہل خانہ اور قریبی لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: (قیامت کے دن ہر دغا باز کیلیے جھنڈا گاڑا جائے گا) اور ہم نے اس شخص کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت کی ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ اس سے بڑی بھی کوئی دغا بازی ہو گی کہ ایک شخص کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں، اور اگر تم میں سے کسی نے اس کی بیعت توڑی ، اور یزید کی تابعداری نہ کی تو پھر اس کا یہ اقدام میرے ساتھ تعلق ختم ہونے کیلیے کافی ہو گا"
[5] دیکھیں: طبری ،ابن کثیر اور ابن الاثیر وغیرہ نے اسے ذکر کیا ہے۔