کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 56
رجوع کر لیا، اسی طرح کچھ اہل علم سے بغاوت کے بعد اپنے کئے پر ندامت اور پشیمانی بھی ثابت ہے، جیسے کہ حسین بن علی سے ثابت ہے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اہل عراق نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے تو انہوں نے یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت سے رجوع کر لیا تھا؛ کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ مزید آگے بڑھنے سے نقصانات اور فتنہ و فساد مزید بڑھے گا۔ چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "علی کو آخر کار یہی بہتر معلوم ہوا کہ فائدہ جنگ کرنے میں نہیں بلکہ نہ کرنے میں ہے، اسی طرح حسین کو بھی ظلم کرتے ہوئے شہید کیا گیا وہ اس وقت امارت کے خواہاں نہیں تھے، وہ اپنے علاقے میں واپس جانا چاہتے تھے یا سرحدوں پر تعینات ہونا چاہتے تھے یا پھر اس وقت کے حکمران یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ علی اور حسین نے آخر کار جنگ ترک کرنے کو بہتر اس لیے سمجھا تھا کہ اس سے ان کے ہمنواؤں میں اضافہ نہیں ہو گا، بلکہ جانیں ہی ضائع ہوں گی اور مقصد پھر بھی حاصل نہیں ہو گا۔ تو اسے کہا جائے گا کہ: یہی تو وہ حکمت ہے جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے روکا، خراب حالات میں لڑائی نہ کرنے کو اچھا عمل قرار دیا، اگرچہ خراب حالات میں بھی جنگ کرنے والے یہی سمجھتے رہے کہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، جیسے کہ واقعہ حرّہ کے موقع پر یزید کے خلاف بغاوت کرنے والے اور جماجم کے واقعہ میں حجاج کے خلاف بغاوت کرنے والے سمجھتے رہے۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ اگر برائی کا خاتمہ اس سے بھی بڑی برائی کے ذریعے ہو تو چھوٹی برائی کا خاتمہ بھی برائی متصور ہو گا، بالکل اسی طرح اگر کوئی