کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 54
انہیں وہ بات سمجھ میں آتی ہے جو شریعت شروع سے ہی انہیں سمجھا رہی ہے، ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اس نفس معاملہ میں شرعی نصوص کا ادراک نہیں ہوتا، یا ادراک تو ہوتا ہے لیکن اس کے ہاں ثابت شدہ نہیں ہوتیں،جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان نصوص کو منسوخ سمجھتے ہیں جیسے کہ ابن حزم [کچھ ایسی نصوص کو منسوخ سمجھتے تھے] اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں اور یہ چیز بہت سے مجتہدین میں پائی جاتی ہے۔ ان تین وجوہات کی بنا پر ہی اہل علم کچھ نصوص پر عمل ترک کر دیتے ہیں،یعنی: یا تو روایات ان کے ہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتیں،یا پھر اسے متعلقہ مسئلے کے متعلق نہیں سمجھتے، یا پھر اسے منسوخ سمجھتے ہیں "[1] اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں : "اہل حرّہ، ابن اشعث کے رفقا، اور ابن المہلب[2]کے ساتھی اور دیگر باغی سب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے اپنی بغاوت کے ذریعے نہ تو اقامتِ دین کا کام کیا اور نہ ہی ان کی دنیا بن سکی۔ اور اللہ تعالیٰ کسی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتا جس میں دینی یا دنیاوی کوئی بھی فائدہ نہ ہو، چاہے ایسے بے فائدہ کام کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ولیوں میں سے انتہائی متقی،پرہیز گار اور اہل جنت میں سے ہی کیوں نہ ہو، [مذکورہ باغی] علی، عائشہ، طلحہ اور زبیر و دیگر [بغاوت نہ کرنے والے صحابہ کرام اور اہل علم ]سے افضل نہیں ہیں،[بغاوت کرنے والے افراد]کی نیت اور ارادہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند پائے کا ہے، لیکن پھر
[1] منہاج السنہ (4؍538) [2] اس سے مراد یزید بن مہلب ہیں، انہوں نے یزید بن عبدالملک کے خلاف عراق میں سن 101 ہجری میں بغاوت کی تھی، ان کی یہ باغی تحریک ان کے سمیت ان کے بہت سارے ساتھیوں کے قتل پر ختم ہوئی، ان کا واقعہ دوسرے حصے میں آئے گا۔