کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 53
ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حج تمتع کے بارے میں کہا: "تمہارے والد نے ا س سے منع کیا ہے" تو اس کے جواب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: "اچھا تم ہی بتلاؤ کہ اگر میرے والد نے اس سے روکا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کر کے دکھایا ہے تو ایسی صورت میں میرے والد کا حکم مانا جائے گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانی جائے گی؟" تو اس پر اس شخص نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانی جائے گی" تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: "تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج تمتع کیا تھا"[1] امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت واضح ہو جائے تو اب وہ کسی کے موقف کی بنا پر حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا"[2] اس لیے علمائے کرام کے موقف کے لیے دلیل تلاش کی جاتی ہے، ان کے موقف کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی بات رد نہ ہوسکے۔ چنانچہ جن اہل علم نے ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی تو ان کے لیے عذر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی اس گفتگو میں بیان کیا ہے: "دوسری وجہ:جو شخص ہتھیار اٹھا کر اہل سنت و الجماعت کے عقیدے سے متصادم رائے کی جانب دعوت نہیں دیتا، جیسے کہ جنگ جمل،صفین،حرّہ،جماجم اور دیگر مواقع پر ہوا، بلکہ اس کا گمان یہ ہوتا ہے کہ ہتھیار اٹھانے سے مطلوبہ مثبت اہداف حاصل ہو جائیں گے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ حالات خراب ہوتے ہیں،اور آخر میں جا کر
[1] ترمذی: (824) اسے نووی رحمہ اللہ نے المجموع: (7؍155) میں اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی: (658) میں اور مقبل الوادعی نے المسند الصحیح (774) میں صحیح قرار دیا ہے۔ [2] اعلام الموقعین (2؍282)