کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 49
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "مسلمانوں میں بڑی نامور شخصیات فتنوں میں بغاوت اور لڑنے سے منع کیا کرتے تھے، جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،سعید بن مسیب رحمہ اللہ،علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہما اور دیگر بڑی بڑی نامور شخصیات حرّہ کے سال یزید کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے، اسی طرح حسن بصری، مجاہد اور دیگر ابن اشعث [1] کے فتنے میں لڑنے سے روکتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جس وقت معاملات سدھر گئے تو اہل سنت علمائے کرام نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث کی روشنی میں فتنوں کے اندر شمولیت سے روکا اور لڑائی ختم کرنے کی ترغیب دلائی، چنانچہ اہل علم ان امور کو اپنے عقائد میں بیان کرتے تھے، اور ظالم حکمرانوں کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے لڑائی نہ کرنے کی ترغیب دلاتے تھے"[2] ایک اور جگہ پر کہتے ہیں : "یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا اصول ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ اجتماعیت قائم رہے اور حکمرانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھایا جائے، خراب حالات میں لڑنے سے بچیں،جبکہ بدعتی گروہ جیسے کہ معتزلی وغیرہ ہیں وہ ظالم حکمرانوں
[1] یہ عبدالرحمن بن محمد بن اشعث ہیں، انہوں نے حجاج اور عبد الملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی اور سن 81 ہجری کو عراق میں اعلان بغاوت کر دیا تھا، اہل عراق میں سے بہت سے لوگ ان کے ساتھ تھے جن میں علمائے کرام اور انتہائی عبادت گزار لوگ بھی شامل تھے، انہوں نے حجاج سے عراق کا کافی حصہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا، حالات بہت زیادہ سنگین ہو گئے تھے اور آخر کار ابن اشعث کو حجاج کے ہاتھوں شکست ہوئی اور ان کے تمام ہمنواؤں کو قتل کر دیا گیا، اس فتنے میں حجاج نے جن کو باندھ کر قتل کیا تھا صرف ان کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی، جن میں سے چار ہزار عراق کے علمائے کرام اور عبّاد تھے، جبکہ اشعث کو قید کر کے حجاج کے پاس لے جا رہے تھے تو انہوں نے خود سوزی کر لی تھی، مکمل قصہ کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گا۔ [2] منہاج السنہ (12؍298)