کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 43
ابو صفرہ نے کیا، حجاج بن یوسف نے بھی ان کا صفایا کیا، ان سے پہلے مصعب بن زبیر نے بھی سیدنا عبد اللہ بن زبیر کے عہد میں ان سے جنگیں لڑیں،اس زمانے میں خارجی شرک سے ہلکے گناہوں پر بھی سرِ عام تکفیر کرتے تھے"[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"سیدنا علی کے خلاف رونما ہونے والے خارجی جنہوں نے ثالثی کے عمل کو کفر قرار دیا اور پھر سیدنا عثمان اور سیدنا علی اور ان کی آل سے اظہار براءت کیا اور جنگیں بھی لڑیں،اگر ان خارجیوں کی جانب گناہوں کی وجہ سے تکفیر منسوب کی جائے تو اس سے غالی قسم کے خارجی مراد ہوتے ہیں "[2]
2۔ ان خارجیوں کی مذمت کے متعلق آنے والی احادیث جن میں کچھ پہلے بھی ذکر ہو چکی ہیں ان احادیث میں کبیرہ گناہوں کی بنا پر تکفیر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ کہ ان میں مذکور مذمت کو کسی بھی خارجی فکر پر لاگو کرنے کے لیے اسے شرط قرار دیا جا سکے، بلکہ ان احادیث میں ایسی علامات ذکر کی گئیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مذمت اور وعید کے حقدار ٹھہرتے ہیں،جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
فرمانِ نبوی : (وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر اہل اسلام کو قتل کریں گے)
فرمانِ نبوی: (وہ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کی ہنسلیوں سے نیچے نہیں اترے گا)
اور فرمانِ نبوی ہے: (بات بہت اچھی کریں گے لیکن ان کے عمل برے ہوں گے)
تو جس وقت ہم سیدنا علی کے خلاف بغاوت کرنے والے لوگوں کے کردار اور گفتار پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں وہ حکمرانوں اور علمائے کرام پر زبان درازی کرتے ہوئے دکھتے ہیں،قرآن کی حقیقی تفسیر کی بجائے من مانی تفسیر کرتے ہیں،جو کام کفریہ نہیں ہیں ان کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں،اس بنا پر مسلمانوں کے مال و جان اور عزت
[1] الدرر السنیۃ (9؍229)
[2] ہدی الساری (483)