کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 36
جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے تو وہ بدعتی ہے، سنت نبوی پر گامزن نہیں ہے"[1] امام بربہاری رحمہ اللہ کہتے ہیں : "کسی بھی مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت کرنے والا خارجی ہے، وہ مسلمانوں کا اتحاد تار تار کر رہا ہے اور احادیث کی مخالفت کا مرتکب ہے، وہ اسی حالت میں مر جائے تو جاہلیت کی موت مرے گا"[2] شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : "یہ خوارج اور معتزلہ کا موقف ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کریں،اور اگر کوئی غلطی یا گناہ پایا جائے تو ان کی اطاعت نہ کی جائے"[3] شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : "کچھ نا عاقبت اندیش کہتے ہیں کہ: جب تک حکمران مکمل طور پر سیدھے نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہم پہ ان کی اطاعت واجب ہی نہیں ہے! یہ غلط ہے، درست نہیں ہے، بلکہ شریعت میں ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ خارجیوں کا نظریہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ حکمران مکمل طور پر شریعت کے پابند ہو جائیں،ایسا کبھی بھی نہیں ہوا، اب تو معاملات اور زیادہ بدل چکے ہیں "[4] تو اس سے عیاں ہوتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا خارجی لوگوں کا نظریہ ہے؛ کیونکہ انہوں نے ہی اس کی سب سے پہلے داغ بیل ڈالی تھی، اگرچہ کچھ خارجی ایسے بھی گزرے ہیں جو کہ گناہوں کی وجہ سے تکفیر نہیں کرتے، لیکن ایسا
[1] شرح اصول الاعتقاد از : لالکائی (1؍161) [2] شرح السنّہ (76) [3] الفتاوى الشرعية في القضايا العصرية (14) [4] شرح ریاض الصالحین (4؍109)