کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 35
اختلاف نہیں تھا، پھر اس قسم کی بھی آگے دو قسمیں ہیں : اول: یہ وہ لوگ ہیں جو دینی حمیت اور حکمرانوں کی سنت نبوی سے بے راہ روی اور ان کے ظلم سے تنگ آ کر اعلان بغاوت کر بیٹھے، تو یہ لوگ اپنے مطالبے میں سچے تھے، انہیں میں حسن بن علی، واقعۂ حرہ میں اہل مدینہ اور حجاج کے خلاف بغاوت کرنے والے ابن اشعث کے رفقاء شامل ہیں ۔ دوم: یہ لوگ محض حکمرانی کی طلب میں باغی ہوئے، چاہے ان کے کچھ شبہات تھے یا نہیں یہ ہر حالت میں باغی ہیں "[1] خارجیوں کی اس قسم پر خروج کا لفظ اس لیے بولا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی، تاہم ان کا حکم پہلی قسم والا نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے حکمرانوں کے ظلم و ستم پر صبر کی تلقین کرنے والی بہت سی احادیث کی مخالفت کی، جن میں حکمرانوں کے مسلمان ہونے تک ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کہ جب تک حکمرانوں سے ایسا صریح کفر عیاں ہو جس میں کسی تاویل یا شبہے کی گنجائش نہ ہو،خارجیوں کی اس دوسری قسم پر کچھ سلف صالحین نے تکفیر کی بجائے بدعت کا اطلاق کیا ہے؛ کیونکہ اِنہوں نے حکمرانوں سے محض نافرمانی صادر ہونے پر اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : "جو شخص کسی ایسے مسلمان حکمران سے بغاوت کر دے جس کی حکمرانی پر سب مسلمان بزورِ تلوار یا رضامندی متفق تھے اور اسے اپنا خلیفہ مانتے تھے تو وہ شخص مسلمانوں کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کا مجرم ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کا مخالف ہے، اگر اسی حالت پر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ نیز مسلم حکمران کے خلاف ہتھیار اٹھانا، کسی فرد کی جانب سے اعلان بغاوت کرنا
[1] فتح الباری (12؍298)