کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 32
دیتے ہیں،پھر جب وہ کافر کہتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مال و جان پر ہاتھ ڈالنا جائز سمجھتے ہیں،بلکہ اسلامی خطے کو دار الحرب کہتے ہیں اور اپنے زیر تسلط علاقوں کو دار الایمان کہتے ہیں "[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "خوارج سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے علی کے ثالث بنانے کو غلط قرار دیا، پھر سیدنا علی اور سیدنا عثمان اور ان کی آل اولاد سے اظہار براءت بھی کیا اور ان سے جنگیں بھی لڑیں،اور اگر وہ مذکورہ خلفائے راشدین کو کافر بھی قرار دیں تو یہ خارجیوں کی متعصب ترین قسم ہے"[2] اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور مقام پر کہتے ہیں : "خوارج سے مراد باغیوں کا ایک گروہ ہے،انہیں خوارج اس لیے کہا گیا کہ وہ دین اور اعلی ترین مسلمان شخصیات کے خلاف بغاوت کرتے ہیں "[3] اہل علم کی اس گفتگو سے ہم خلاصہ یہ نکال سکتے ہیں کہ: " حکمرانوں کے خلاف خروج یعنی بغاوت میں تمام خارجی مشترک ہیں،اور اسی لفظ سے خارجی بنا ہے، ایک توجیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ چونکہ یہ لوگ نظریاتی مخالفت اور گناہوں پر کافر ہونے کا فتوی صادر کرنے کی وجہ سے دین سے خارج ہو جاتے ہیں اس لیے انہیں خارجی کہا گیا " اس میں صحیح بات یہ ہے کہ: خوارج کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم: یہ وہ لوگ ہیں جو ارتکاب معصیت پر فتوی کفر صادر کرنے جیسے نظریات کی بنا پر حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں،تو یہ قسم انہی خارجیوں کی ہے جو دین
[1] مجموع الفتاوی (19؍72) [2] ھدی الساری (459) [3] فتح الباری (12؍296)