کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 26
وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا[1]) [2] چھٹی حدیث(حاکم کے ظلم کے باوجود اس کی اطاعت فرض ہے ): علقہ بن وائل حضرمی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ : سلمہ بن یزید جعفی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے استفسار کیا: " اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مسلط ہو جائیں جو ہم سے اپنے حقوق تو مانگیں اور ہمارے حقوق ادا نہ کریں،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا جواب دینے سے احتراز فرمایا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پھر پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر بھی جواب دینے سے احتراز فرمایا،پھر اس نے دوسری یا تیسری مرتبہ پوچھا تو اسے اشعث بن قیس نے کھینچ لیا،پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پھر بھی اپنے حکمران کی بات سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے)" [3] ساتویں حدیث(شر کے دور میں بھی ظالم حکمران کی اطاعت لازم ہے ): حذیفہ بن یمان کہتے ہیں میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم برائی میں پھنسے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں [اسلام کی صورت میں ]بھلائی دی تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہاں ) میں نے عرض کیا : کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی؟
[1] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم اور رعایا کا تعلق صرف دو طرفہ حقوق اور واجبات کی ادائیگی پر ہی موقوف نہیں ہے کہ اگر ایک جانب سے ظلم ہوا تو دوسری جانب بدلے میں بقدرِ ظلم واجبات ادا نہ کرے، بلکہ حکمران اور رعایا کا تعلق تب بھی قائم دائم رہے گا جب حاکم کی جانب سے ظلم ہو رہا ہو، چنانچہ حکمران کے ظلم پر صبر کر کے بھی اس کی اطاعت کرنا اس حدیث کا تقاضا ہے؛ کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر لا قانونیت اور انتشار پھیلنے میں دیر نہیں لگتی ، اس اعتبار سے یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ [2] بخاری: (3603) مسلم: (1843) [3] مسلم : (1846)