کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 23
کے لیے بھی خوش خبری ہے)[1] تیرہویں حدیث(خوارج جہنم کے کتے ہیں): سعید بن جمھان رحمہ اللہ کہتے ہیں : "میں عبد اللہ بن ابو اوفی کے پاس آیا اس وقت آپ کی بینائی جا چکی تھی، تو میں نے انہیں سلام کیا، اس پر انہوں نے پوچھا: آپ کون ہیں ؟ تو میں نے کہا: سعید بن جمھان ہوں،پھر انہوں نے کہا: آپ کے بیٹے کا کیا بنا؟ تو میں نے کہا: اسے ازارقہ[2] نے قتل کر دیا ہے، تو عبد اللہ کہنے لگے: ازارقہ پر اللہ لعنت فرمائے، ازارقہ پر اللہ لعنت فرمائے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا تھا کہ وہ جہنم کے کتے ہیں ۔" سعید کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: "صرف ازارقہ جہنم کے کتے ہیں یا سارے کے سارے خارجی؟" تو انہوں نے کہ: سارے کے سارے خارجی جہنم کے کتے ہیں ۔ سعید کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: اگر حکمران لوگوں پر ظلم کرتا ہو اور ان کے ساتھ زیادتی کرے !! اس پر عبد اللہ نے ان کے ہاتھوں کو پکڑا اور سختی سے جھٹک دیا اور کہا: "جھمان کے بیٹے! سواد اعظم یعنی ملت کا التزام رکھو، ملت کے ساتھ رہو، اگر حکمران تمہاری بات سنتا ہو تو تم اس کے گھر جا کر بتلاؤ کہ مجھے یہ خبریں ملی ہیں،تو اگر وہ آپ کی بات سن کر مان لے تو ٹھیک ورنہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ؛ کیونکہ حالات کا ان سے زیادہ آپ کو علم نہیں ہے!"[3] ٭٭٭
[1] اسے دیگر محدثین کے ساتھ امام ترمذی نے روایت کیا ہے ، حدیث نمبر: (3000) اسی طرح ابن ماجہ: (176)، مسند احمد: (5؍250)، امام حاکم نے مستدرک (2؍149) میں اور علامہ آجری نے اپنی کتاب: "الشریعۃ" (58) میں نقل کیا ہے اور یہ الفاظ علامہ آجری سے ہی ماخوذ ہیں، اس روایت کو البانی نے صحیح ترمذی (2398) میں صحیح قرار دیا ہے۔ [2] یہ بھی خارجی گروہ ہے جو کہ نافع بن ازرق کے تابع تھا یہ عراق میں 65 ہجری کو رونما ہوئے اور انہوں نے بصرہ اور اہواز تک کا علاقہ اپنے زیر تسلط کر لیا تھا، انہوں نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سب کا قتل عام کیا، بلکہ یہ بچوں کو ابلتی ہوئی کڑھائی میں ڈال دیتے تھے، ان کا خاتمہ مہلب بن ابی صفرہ نے کیا تھا۔ [3] اسے امام احمد (4؍382) نے روایت کیا ہے، یہ الفاظ مسند احمد سے ہی ماخوذ ہیں، ابن ماجہ: (173)، طیالسی: (822) اور دیگر نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے، ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسے طبرانی اور احمد نے روایت کیا ہےا ور مسند احمد میں اس کے راوی ثقہ ہیں" نیز اسے البانی نے ابن ابی عاصم کی کتاب "السنۃ" کی تحقیق میں حسن کہا ہے اور مقبل الوادعی نے "الصحیح المسند" (542) میں حسن کہا ہے۔