کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 190
میں مت پڑیں،باہمی تعاون کی فضا کو فروغ دیں اور دوسری تنظیموں کے لیے بھی خیر کی امید رکھیں،ان کے محاسن اور خوبیاں بیان کریں،ایسی باتوں سے گریز کریں جن سے دیگر تنظیموں کے ساتھ تعلقات میں سر مہری پیدا ہو، لہٰذا اگر یہ جماعتیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت دیتی ہیں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے"[1] ایک اور جگہ آپ نے ارشاد فرمایا: "اگر کسی بھی اسلامی ملک میں خیر و بھلائی کے لیے تنظیمیں وجود میں آئیں،نیکی اور تقوی کی بنیاد پر باہمی تعاون کی فضا کو پروان چڑھائیں،آپسی اختلافات میں نہ پڑیں تو اس میں خیر و برکت ہے اس کے مثبت فوائد بہت ہیں ۔ اور اگر یہ باہمی طور پر دست گریبان رہیں ایک دوسرے پر تنقید ان کا شیوہ ہو تو پھر اس کے نقصانات اور منفی اثرات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حقائق سب کے سامنے رکھیں ہر تنظیم سے براہِ راست بات چیت کریں اور سب کو یہی نصیحت کریں کہ راستہ اور جادہ وہی اپنائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیا ہے، اسی راہ کے راہی بنیں جس کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے۔ البتہ جو شخص اس راہ پر نہیں چلتا اور شخصی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ہٹ دھرمی اور ضد پر اتر آئے یا اپنے خفیہ ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ڈٹ جائے تو پھر اس کی علی الاعلان برائی بیان کرنا ضروری اور واجب ہے، جو شخص ٹھوس بنیادوں پر حقیقت جان لے تو وہ دوسروں کو اس سے بچنے کی تلقین کرے تا کہ لوگ مزید اس کے پیچھے مت چلیں،اور نئے لوگ اس کے ساتھ شامل مت ہوں،نیز اللہ تعالیٰ کے
[1] مجموع الفتای (11؍92)