کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 189
’’نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو گناہوں اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ مقصد صرف اعلائے کلمۃ اللہ ہی ہونا چاہیے، اپنی جماعت کی سربلندی مقصود نہ ہو،اسی طرح اعلائے کلمۃ اللہ کی کوشش حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے بغیر ہونی چاہیے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ گروہ بندی اور دھڑے بازی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"اگر گروہ بندی کے بعد وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات پر بغیر کسی کمی اور بیشی کے قائم دائم ہوں تو ان کا حکم مومنوں والا ہے، ان کی ذمہ داریاں اور واجبات سب مومنوں والے ہوں گے، لیکن اگر انہوں نے شرعی احکامات میں کمی بیشی کی یعنی جو ان کی جماعت میں شامل ہو صرف اسی سے دوستی باقی تمام سے تعصب رکھیں تو یہ کام اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی جانب سے مذموم کاموں میں شامل ہے؛ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے باہمی اتفاق اتحاد اور متحد ہونے کا حکم دیا ہے انتشار اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے، نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کا حکم دیا ساتھ میں گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون سے روکا"[1]
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے اسلامی ممالک میں نوجوانوں کی شرعی رہنمائی کے لیے اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں بنانے کے حوالے سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنا عصرِ حاضر میں مثبت اقدام ہو گا؟ تو انہوں نے فرمایا:
"اسلامی تنظیموں کا وجود مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث ہے، تاہم ان جماعتوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حق بات دلیل کے ساتھ واضح کریں،آپسی اختلافات
[1] فتاوی نور علی الدرب