کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 188
’’بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کر دیا اور وہ گروہوں میں بٹ گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ لہٰذا ایسی تمام جماعتیں جن کا ہدف اسلام کی سر بلندی ہے ان کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں منافرت پیدا نہ ہونے دیں،ان پر واجب ہے کہ یک جان بن جائیں بالکل اسی طرح جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کی جماعت تھی، یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے بتلائی تھی کہ: (یہ امت 73 فرقوں میں بٹے گی اور ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے) کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا فرقہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو میرے اور میرے صحابہ کرے منہج پر ہوگا)" نیز قابل ستائش گروہ بندی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں نیکی اور مثبت سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو تقویت ملتی ہے کہ ایک منظم شکل میں کتاب و سنت، عقیدہ توحید، صحیح سلفی عقیدہ اور سلف صالحین کا طریقہ کار لوگوں میں عام ہوتا ہے، دوسروں سے تعصب اس میں نہیں پایا جاتا، بلکہ مذموم دھڑے بندی کی صفات بھی اس میں شامل نہیں ہوتیں ۔ مثلاً: کچھ لوگ مل کر اللہ تعالیٰ کی جانب دعوت دینے کے لیے،تعلیم و تربیت عام کرنے کے لیے یا پھر رفاہِ عامہ کے کام سر انجام دینے کے لیے متحد ہو کر کام کرتے ہیں اسی میں مساجد، اسلامی مراکز اور شرعی علوم کے انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی تعاون کی فضا کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ١ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ [المائدة: 2]