کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 182
بھی یقینی ہوتے ہیں "[1] اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا: امت اسلامیہ کی دگر گوں حالت کو تبدیل کرنے کے لیے مظاہرے کرنا کیا دعوتی وسائل میں شامل ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا: "ہمارا دین انتشار اور بے چینی کا دین نہیں ہے، ہمارا دین ہمیں ہر کام منظم انداز میں کرنے کی ترغیب دیتا ہے، یہ دین پر سکون دین ہے، اس لیے مظاہرے کرنا مسلمانوں کا کام نہیں اور نہ ہی یہ مسلمانوں کی ثقافت ہے، دین اسلام تو سلامتی، رحمت اور پر سکون رہنے کا دین ہے، اس دین میں بے چینی، انتشار، تشویش اور فتنہ پروری کا تصور بھی نہیں ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اس کے علاوہ بھی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی جائے اور دیگر قانونی راستے اپنائیں جائیں ۔ ان مظاہروں کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں،ان میں بے گناہوں کا خون رائیگاں جاتا ہے، املاک اور دیگر مملوکہ اشیا تباہ و برباد ہو جاتی ہیں،ان تمام امور کی وجہ سے مظاہرے کرنا جائز نہیں ہے"[2] یہ بات ہم پہلے جان چکے ہیں کہ ان مظاہروں میں حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے منفی طریقے اپنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عثمان کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے ایک مقرر وقت پر مدینہ میں پہنچ کر آپ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا تھا اور معاملہ آپ کے قتل تک جا پہنچا، پھر جو فتنہ اور انتشار پھیلا وہ اس پر مستزاد تھا۔اسی طرح حمات، الجزائر میں جتنے بھی مظاہرے ہوئے ان سے بھی فتنے اور خرابیاں پیدا ہوئیں،معصوم جانیں ضائع گئیں ۔ تو کیا اب بھی سمجھنے والا کوئی ہے!!
[1] دیکھیں: الصحوة الإسلامية ضوابط وتوجيهات (168) [2] دیکھیں: الأجوبة المفيدة على أسئلة المناهج الجديدة (217)