کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 179
وضاحت کر سکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کی وضاحت اور تفصیلات میں کمی کی کوشش کی تو سنگ دل ہو گئے اور کچھ لوگوں نے ان سے آگے بڑھنا چاہا تو وہ غلو میں واقع ہو گئے، حالانکہ ان دونوں کے مابین ہدایت اور راہِ مستقیم تھی" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی اصول کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : "اس کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ یوں کہا جائے: لوگ کوئی بھی چیز اچھی سمجھ کر ہی ایجاد کرتے ہیں اگر وہ اسے برائی ہی سمجھیں تو اس بدعت کو کیوں ایجاد کریں ! کیونکہ برائی ایجاد کرنے کی بات عقل اور دین ہر ایک کے منافی ہے۔ لہٰذا جس کام کو مسلمان فائدے کی چیز سمجھیں تو جن اسباب کی بنا پر اسے فائدہ مند سمجھا جا رہا ہے اسے دیکھیں اگر یہ ضرورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ہماری سستی کے بغیر رونما ہوئی تو پھر ایسی صورت میں ضرورت کے مطابق نیا کام ایجاد ہو سکتا ہے[1]یا پھر اس کام کی ضرورت تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں موجود تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مصلحت کی بنا پر اس کام کو نہیں کیا اور وہ رکاوٹ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے ساتھ ختم ہو گئی تب بھی ایجاد کی گنجائش ہے۔[2] یا نیا کام ایجاد کرنے کی ضرورت ہی موجود نہیں ہے، یا نیا کام ایجاد کرنے ضرورت لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے پیش آتی ہے تو ایسی صورت میں نیا کام ایجاد کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لہٰذا کوئی بھی کام جس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں تھی لیکن
[1] جیسے کہ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا اور اس کی ضرورت مسلمانوں کی سستی کی وجہ سے محسوس نہیں کی گئی بلکہ نو مسلموں کی ضرورت قرآن مجید کو یکجا کرنے کا باعث بنی۔ [2] جیسے کہ تراویح ایک امام کے پیچھے پڑھنے کا عمل