کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 178
"کسی نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے قدر کے متعلق سوال کرتے ہوئے خط لکھا تو اس کا جواب تحریر کرتے ہوئے آپ نے کہا: حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمہیں تقوی الہٰی کی نصیحت کرتا ہوں،اللہ تعالیٰ کے احکامات پر میانہ روی سے چلو اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر گامزن رہو، سنت عام ہو جانے کے بعد بدعتی لوگوں کی بدعات سے دور رہو، تمہیں ان کی ضرورت نہیں ہے، اپنے آپ کو سنت پر کار بند رکھو یہ سنت ہی اللہ کے حکم سے آپ کی نجات کا باعث ہو گی۔ یہ بھی ذہن نشین رکھو کہ: لوگ کوئی بھی بدعت ایجاد کریں تو اس سے پہلے ہی اس بدعت کے خلاف صریح یا کنایۃً دلائل گزر چکے ہوتے ہیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ سنتیں ایسی شخصیت نے طے کی ہیں جسے علم تھا کہ سنتوں کی خلاف ورزی خطا محض اور بیوقوفی ہے، اس لیے تم بھی اسی چیز کو اپناؤ جسے سلف نے اپنایا؛ کیونکہ انہوں نے کوئی بھی عمل علم کی بنا پر کیا اور کچھ [کام انہوں نے نہیں کیے وہ ]دور اندیشی کی وجہ سے ترک کیے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ معاملات کی چھان پرکھ انتہائی قوی انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اگر اس [متروکہ عمل] میں کوئی ثواب یا اجر ہوتا تو وہ اس کے سب سے پہلے حقدار بنتے، اگر تمہارے اعمال ہدایت کے مطابق ہوتے تو وہ تم سے پہلے ان پر عمل پیرا ہوتے، اور اگر تم یہ کہو کہ یہ امور ان کے بعد رونما ہوئے تو ان کے موجدین سلف کے راستے سے ہٹ چکے ہیں،انہوں نے اپنے آپ کو جادۂ سلف سے ہٹا دیا ہے، سلف صالحین نیکیوں کے لیے بعد میں آنے والے لوگوں سے کہیں زیادہ حریص تھے، انہوں نے شرعی امور کے بارے میں کافی شافی معلومات دے دی ہیں ؛ لہٰذا اب ان کی تعلیمات اور معلومات کے بعد نہ اس میں کسی قسم کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی