کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 168
اسی طرح ابن مسعود کہتے ہیں : "عنقریب کچھ مشتبہ امور رونما ہوں گے تو تم نے صبر و تحمل سے کام لینا ہے؛ کیونکہ برائی میں سرغنہ بننے سے بہتر یہ ہے کہ انسان خیر کے کام میں کسی کے پیچھے چل پڑے"[1] حقیقت میں یہی راسخ اہل علم کا طریقہ کار ہے کہ ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ ہوتا ہے جلد بازی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے بات کرتے ہوئے جلد بازی سے کام لیا تو بعد میں علم ہوا کہ جس بنیاد پر بات کی گئی تھی وہ بنیاد ہی کھوکھلی تھی،یا پھر جس انداز سے خبر پہنچی وہ خبر ہی غلط تھی، یا اس واقعے کو غلط رنگ اور سمت دی گئی، یا اسی طرح کے کوئی اور مؤثر عوامل ملنے پر اپنی کہی ہوئی بات پر ندامت کا شکار ہونا پڑا، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ہاں اس کی جلد بازی اور طیش کی وجہ سے قدر و قیمت ہی گر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نرمی کسی بھی چیز میں ہو وہ اسے مزین بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جائے تو وہ بھدی بن جاتی ہے) [2] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اشج عبد القیس کے متعلق فرمایا تھا: (تمہارے اندر دو خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں پسند فرماتا ہے: حلم اور طبیعت میں ٹھہراؤ) [3] چنانچہ طبیعت میں نرمی،ٹھہراؤ، عجلت سے دوری یہ سب دیندار، عقلمند اور پختہ عزائم والے لوگوں کی صفات ہیں ۔ نیز ایک شرعی اور عقلی اصول بھی ہے کہ: "کسی چیز کا حکم ذہن میں اس کے تصور سے مترشح ہوتا ہے"
[1] اسے ابن وضاح نے "البدع" (159) میں اور بیہقی نے "شعب الایمان" (7؍297) میں روایت کیا ہے۔ [2] مسلم (2594) [3] مسلم (17)