کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 167
یہ سب کا سب معاملے کے بارے میں مکمل تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہو رہا ہو گا، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب تک معاملات واضح نہیں ہو جاتے،حقیقت عیاں نہیں ہو جاتی،اس واقعے کا پس منظر اور ارد گرد کے حالات و واقعات سامنے نہیں آتے اس وقت تک کچھ بھی کہنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس بارے میں بات کرنا مصلحت کے مطابق ہو گا یا نہیں ؟ اور اگر بات کرنی بھی ہے تو کیا کہنا ہے؟ اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ﴾ [النساء: 83] ’’اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں ۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اس آیت میں کسی بھی بات کو سن کر فوری طور پر نشر کرنے سے روکا گیا ہے، نیز بات کو سن کر اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے غور و فکر کا حکم دیا گیا ہے کہ کیا اس معاملے میں بات کرنا مصلحت کے مطابق ہے تو بات کرے اور اگر نہیں تو پھر گریز کرے"[1] اسی طرح سیدنا علی کہتے ہیں : "جلد باز، باتوں کو پھیلانے والے اور لوگوں میں بات نشر کرنے والے مت بنو، کیونکہ [اگر تم ایسے بن گئے تو]تمہاری وجہ سے لمبے چوڑے وسیع و عریض فتنے کھڑے ہو جائیں گے"[2]
[1] تفسیر سعدی [2] اس اثر کو امام بخاری نے "ادب المفرد "(327) میں روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔