کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 166
لگا ہوا ہو"[1]
اسی طرح ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"متاخرین میں سے بہت سے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ کسی ایک مسئلے میں بہت زیادہ مباحثہ، تکرار، بحث اور مناظرے کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں،ان کا یہ ماننا ہے کہ جس شخص میں یہ چیزیں دینی امور کے متعلق جس قدر زیادہ ہوں گی وہ اتنا ہی بڑا عالم ہوگا، حالانکہ یہ خالص جہالت ہے؛ کیونکہ آپ ذرا اکابر صحابہ کرام پر نظر دوڑائیں مثلاً: ابو بکر، عمر، علی، عثمان،ابن مسعود اور زید بن ثابت وغیرہ ان کی مسائل کے متعلق گفتگو ابن عباس سے کم ہے، حالانکہ وہ ابن عباس سے بڑے عالم ہیں،اسی طرح تابعین کی گفتگو صحابہ کرام سے زیادہ ہے، حالانکہ صحابہ کرام تابعین سے بڑے اہل علم تھے، ایسے ہی تبع تابعین کی گفتگو تابعین سے زیادہ ہے حالانکہ تابعین ان سے بڑے اہل علم تھے۔
لہٰذا بہت زیادہ روایات اور تحریروں کا نام علم نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک روشنی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دل میں ڈال دی جاتی ہے، اس روشنی کی مدد سے انسان حق و باطل میں فرق کرتا ہے اور اس کا مختصر اور آسان لفظوں میں حکم بیان کر دیتا ہے"[2]
چوتھی علامت: کسی بھی رونما ہونے والے واقعے کی حیثیت اور حقیقت تو دور کی بات ہے اس کی تصدیق سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دینا۔
آپ ملاحظہ کریں گے کہ کسی بھی ملک میں کوئی بھی مسئلہ پیدا ہو تو فوری طور پر ایسے لوگوں میں سے کوئی نہ کوئی ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ یا دیگر ابلاغی وسائل کے ذریعے تجزیہ کاری کرتے ہوئے حکم لگا رہا ہو گا،کسی نہ کسی کو تنقید کا نشانہ بنائے گا اور مجوزہ حل پیش کر رہا ہو گا،
[1] شرح السنہ (102)
[2] دیکھیں کتاب: "بيان فضل علم السلف على علم الخلف" صفحہ: (57)