کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 164
جیسے کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:"لوگو! دینی امور میں رائے زنی سے حتی الامکان بچو؛ کیونکہ اگر اپنی رائے کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی حکم کو مسترد کرنا چاہتا تو ابو جندل کے واقعے میں کر سکتا تھا"[1]
تیسری علامت: جدید مسائل میں بہت زیادہ چرب زبانی اور بحث و تکرار، آپ انہیں ہر چیز کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ضرور پائیں گے، اور اپنا موقف بیان کرنے کے لیے اخباری بیانات کا سہارا لیں گے، ہر تھوڑے سے وقفے کے بعد ان کا نیا اخباری بیان سامنے آیا ہوا ہو گا، بلکہ اخباری بیان میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ملائیں گے،ان کی تعداد کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ اگر انہیں یکجا جمع کر دیا جائے تو ایک بڑی کتاب بن جائے۔
فتنوں سے متعلق بہت زیادہ گفتگو کرنے سے بے چینی اور اضطرابی حالت ہی پیدا ہوتی ہے؛ کیونکہ ہر رونما ہونے والے واقعے پر تبصرہ اور موقف بیان نہیں کیا جاتا، زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ مختصر اور واضح لفظوں میں بیان دیا جاتا ہے جو سب کو سمجھ بھی آ جائے اور خطرات بھی ٹل جائیں،لیکن بہت زیادہ گفتگو، بحث و تکرار، مباحثے اور مناظرے کرنا تو یہ بدعتی اور گمراہ لوگوں کا کام ہے۔
حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عمرو بن عبید اور شبیب بن شیبہ ایک رات بیٹھے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ فجر ہو گئی، پھر جب نماز ادا کر لی تو عمرو بن عبید،شبیب بن شیبہ کو کہنے لگا: ابو معمر
[1] اس روایت کو بخاری: (3953) نے نقل کیا ہے ، ابو جندل کے واقعے سے مراد یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صلح کی شقیں تحریر ہو رہی تھیں تو اسی دوران مکہ سے ابو جندل رضی اللہ عنہ آنکھ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور حدیبیہ کے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملنے لگے تو سہیل بن عمرو جو کہ کفار مکہ کا نمائندہ تھا اس نے کہا: محمد - صلی اللہ علیہ وسلم - اس معاہدے کا سب سے پہلے اطلاق ابو جندل پر ہو گا اور آپ اسے ہمارے حوالے کریں گے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حامی بھر لی اور مسلمانوں کو اس پر شدید تحفظات تھے، لیکن چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا اس لیے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت نہیں کی۔