کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 163
کو شش و پنج میں ڈال دیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود پسندی میں مبتلا ہیں اور انہیں اپنے آپ پر گھمنڈ بھی ہے۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تین چیزیں تباہ کن ہیں -انہیں بیان کرتے ہوئے فرمایا- انسان اپنے بارے میں گھمنڈ کرے) [1]
کسی بھی علم سے وابستہ فرد کی علمی گہرائی اس وقت ظاہر اور عیاں ہوتی ہے جب انسان جدید مسائل اور پر فتن حالات میں کبار علمائے کرام کے راستے پر گامزن ہو، حقیقت میں یہی وہ میدان ہے جس میں انسان کا علم نکھر کر سامنے آتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے علم حدیث میں ثقہ راوی کی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے بڑے ثقہ راویوں کی مخالفت نہ کرے ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص جدید مسائل میں اہل علم کی مخالفت کرے پھر اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مناظروں اور بحث و تکرار پر اتر آئے، اپنے مخالفین کو حقارت آمیز لہجے میں مخاطب کرے انہیں بیوقوف قرار دے، تو یہ -اللہ کی پناہ- ہوس پرستی میں شامل ہے، اہل بدعت کا یہی طرۂ امتیاز رہا ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی حق پر سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ تشنگان علم کا وتیرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے، نیز اپنا موقف اپنانے میں جلد بازی اور جذبات سے کام نہیں لیتے،پھر اگر اپنا موقف بنا بھی لیں تو دوسروں کو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور نہیں کرتے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ابتدا میں معاملہ اتنا واضح نہ ہو،نتائج کے خد و خال عیاں نہ ہوئے ہوں،لیکن بعد میں یہ سب چیزیں سامنے آنے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے اور غلطیاں ظاہر ہونے لگیں،اب غلط موقف اپنانے کی وجہ سے امت کو جو نقصان پہنچا،وحدت امت میں رخنے پڑے ان سب کی تلافی کے لیے غلط موقف اپنانے کے پیچھے کار فرما حسن نیت کافی نہیں ہو سکتا۔
[1] اس حدیث کی تخریج پہلے صفحہ: (159) پر گزر چکی ہے۔