کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 162
روک دیتے تو؟ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: تو میں رک جاتا؛ کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو کسی کام کا اہل سمجھنے سے پہلے کسی بڑے سے پوچھ لے کہ کیا میں اس کام کا اہل ہو گیا ہوں ؟"[1]
اسی طرح امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر کسی عالم کے بارے میں علمائے کرام گواہی نہ دیں تو اس کا حکم بے علم لوگوں والا ہی ہوتا ہے، حتی کہ کوئی دوسرا شخص اس کے عالم ہونے کی گواہی دے دے، اور اسے خود بھی دی جانے والی گواہی کے متعلق اعتراف ہو، بصورتِ دیگر لا علم ہونے کا تو اسے یقین ہوگا یا شک ہو گا، تو ہر دو حالت [لاعلمی پر یقین یا شک]میں اپنے آپ کو فتوے کا اہل سمجھنا ہوس پرستی ہے؛ کیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے بارے میں کسی سے رائے لے لیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، تو اب یہ ہونا چاہیے تھا کہ فتوی نویسی کے لیے اسے کوئی دوسرا شخص چنتا،لیکن اس نے یہ بھی نہیں کیا [تو اب یہی بات باقی رہ جاتی ہے کہ اس نے ہوس پرستی کی وجہ سے من مانی کی ہے]"
مذکورہ بالا علمائے کرام کی گفتگو میں گواہی سے مراد یہ نہیں ہے کہ اہل علم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ محنتی اور لائق طالب علم ہے، بلکہ یہاں پر وہ یہ کہیں کہ فلاں شخص جدید مسائل میں فتوی دینے کا اہل ہے یا اسی طرح کی حسب ضرورت تعبیر استعمال کریں ۔
دوسری علامت: جدید مسائل اور فتنوں میں علمائے کرام کی مخالفت کریں،ایسے لوگ محض فتوی جھاڑنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ نفس مسئلہ میں علمائے کرام کے فتاوی کی مخالفت کرتے ہیں،اس طرح انہوں نے ایک متفقہ رائے کو اختلافی بنا دیا اور لوگوں
[1] اس اثر کو بیہقی نے "المدخل" باب: التوقي عن الفتيا والتثبت فيها: (2؍279) میں اور اسی طرح : خطیب بغدادی نے الفقيه والمتفقه، باب: القول فيمن تصدى للفتاوى العامة: (2؍154) اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں مالک بن انس کے سوانح ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔