کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 16
پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا [1]، اہل اسلام کا قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے[2]، وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے،اگر میں ان کو پاؤں تو انہیں لازمی طور پر قوم عاد کی طرح قتل کرو[3]۔ "[4] دوسری حدیث(خوارج کا عدل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنا): ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ذو الخویصرہ آیا --اس کا تعلق بنی تمیم سے تھا-- اور کہا : اللہ کے رسول! عدل کرو!!، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تیرا ستیاناس ہو! اگر میں انصاف نہ کروں تو انصاف کرنے والا کون ہے ؟ اور اگر میں عدل نہ کروں تو پھر توں انتہائی بدنصیب اور نقصان اٹھانے والا ہو گا) تو اس پر عمر بن خطاب نے عرض کیا: " اللہ کے رسول! مجھے اس کی گردن اتارنے کی اجازت دے دیں " تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کے ساتھی ایسے ہوں گے کہ تمہارا ایک آدمی اپنی نماز کو ان کی نماز سے حقیر تصور کرے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے سے حقیر جانے گا، قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے کہ : تیر انداز اس کے بھالے کو دیکھتا ہے تو اس پر کوئی چیز لگی ہوئی نہیں پاتا،پھر تیر کی
[1] یعنی قرآن کریم کو سمجھے بغیر پڑھیں گے۔ [2] آج یہی صورت حال ہے، مسلمانوں کو بم دھماکوں ، خود کش حملوں اور باردوی گاڑیوں سے ٹکرا کر اڑا دیا جاتا ہے۔ [3] ایک اور حدیث میں قومِ عاد کے ساتھ "ثمود" کا ذکر بھی ہے، امام قرطبی کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قتل عام کے ذریعے یک لخت ختم فرما دیتے، کسی کو بھی باقی نہ چھوڑتے، ان میں سے کسی کو بھی قتل کرنے میں ذرا تامل نہ فرماتے، جیسے اللہ تعالی نے قومِ عاد کو یک لخت ختم فرمایا" شرح مسلم ، از امام قرطبی: (3؍113) [4] بخاری : (3344) مسلم: (1064)