کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 154
پہلا مبحث: علمائے کرام کے فہم کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنے فہم کو ترجیح دینا جتنے بھی فتنے اور باغی تحریکیں پیدا ہوئی ہیں سب کی بنیاد یہی تھی، اس کی تفصیلات پہلے گزر چکی ہیں کہ ذاتی فہم کو ترجیح دینا سنگین ترین منہجی غلطی ہے۔ ہم پہلے یہ چیز دیکھ چکے ہیں کہ فتنوں اور مشکل حالات میں علمائے کرام سے رابطہ منقطع کرنا ماضی کی تمام باغی تحریکوں کی بنیاد رہا ہے ہم یہ دوسری فصل میں ذکر کر چکے ہیں،آپ سیدنا عثمان کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے لیکر القاعدہ کے فتنے تک نظر دوڑا لیں سب کی سب تحریکوں اور تنظیموں میں قدر مشترک یہی نظر آئے گی کہ انہوں نے اہل علم اور علمائے کرام سے رہنمائی نہیں لی، حالانکہ سیدنا عثمان کے دور میں ایسے صحابہ کرام اور اہل علم موجود تھے جن کی علمی صلاحیتوں پر ساری امت کا اتفاق ہے، تمام لوگوں کے ہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں قبولِ عام عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ عثمان کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے صحابہ کرام کے فہم کو نہیں مانا بلکہ ان کے متعلق زبان درازی کی۔ ان کے بعد رونما ہونے والے خارجیوں نے یہی طرزِ عمل اپنایا بلکہ ان سے بھی آگے بڑھتے ہوئے صحابہ کرام کو - نعوذ باللہ -کافر ہی کہہ دیا۔ اسی طرح سانحہ حرّہ میں بھی باغی لوگوں نے ابن عمر اور نعمان بن بشیر جیسے صحابہ کرام اور تابعین ابن مسیب رحمہ اللہ وغیرہ کی بات نہ مانی۔ ایسے ہی ابن اشعث اور ابن مہلب کے ساتھیوں نے بھی حسن بصری اور مجاہد سمیت