کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 129
اس تحریک کے نتائج 1۔ مجموعی طور پر دیندار لوگوں کے لیے زمین تنگ ہو گئی، واعظین کو جیلوں میں ڈالا گیا، سزائیں اور قید و بند کی صعوبتیں انہیں جھیلنا پڑیں اور کچھ کو قتل بھی کیا گیا ۔ 2۔ جیلوں میں بہیمانہ سزاؤں کے رد عمل کی وجہ سے تکفیری سوچ پروان چڑھی پھر اس فکر کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں نے بہت ہی نقصانات اٹھائے، اس تحریک کے دوران قید میں ڈالے جانے والے سید قطب جنہیں 1384ہجری بمطابق 1964ء میں رہا کر دیا گیا، انہیں بھی پذیرائی ملی انہوں نے اپنی تحریروں میں اسلامی ممالک کو جاہلیت [1]سے موصوف کیا، انہیں کفریہ ممالک قرار دیا، ان کے مطابق مسلمانوں کے موجودہ حالات عہد نبوت میں سے مکی زندگی کے مطابق تھے۔[2]
[1] اس کیلیے دیکھیں: "معالم في الطريق"، اسی طرح " في ظلال القرآن" اور " العدالة الاجتماعية" [2] جیسے کہ ان کی کتاب: "معالم في الطريق" میں لکھا ہے کہ: "ہمارے ارد گرد دورِ جاہلیت رواں دواں ہے، لوگوں کے نظریات، عقائد، عادات، رسم و رواج، ثقافت، فنون، ادب، قوانین اور دستور حتی کہ ان کا دین اسلام بھی جاہلیت کی پیداوار ہے، اس جاہلیت کا خاتمہ از بس ضروری ہے اس کیلیے موجودہ حکومتوں اور قوانین کو ختم کرنا ہو گا جو کہ عوام کی عوام پر حاکمیت اور انسان کو انسان کا بندہ بناتی ہے دینی تحریکوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہیں ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی قوتیں ہیں، اور یہ بڑی ہی کم عقلی کی بات ہو گی کہ اس دنیا میں انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزادی دلانے کیلیے مادی قوتوں کے سامنے محض بیان و زبان ہی پر اکتفا کیا جائے، لہذا اگر رکاوٹیں مادی قوتوں کی شکل میں موجود ہیں تو انہیں سب سے پہلے مسلح کاروائی کے ذریعے انہی قوتوں کو زائل کرنا ضروری ہے، تا کہ انسان کے دل و دماغ کو سیاسی قوتوں سے آزادی کی حالت میں مخاطب کرنے کا موقع ملے ۔" اسی طرح ان کی تفسیر " في ظلال القرآن" (4؍2122) میں لکھا ہے کہ :"آج روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان مملکت نہیں ہے، اور نہ ہی مسلمان معاشرہ موجود ہے جہاں پر لین دین کیلیے شریعت الہی اور اسلامی فقہ کو بالا دستی حاصل ہو" ایک اور جگہ پر لکھا ہے: "اس وقت پوری بشریت لوگوں کی غلام اور ادیان کے ظلم میں پس رہی ہے، بشریت اس وقت لا الہ الا اللہ سے منہ موڑ چکی ہے، اگرچہ انسانوں میں سے کچھ لوگ اذان دیتے ہوئے لا الہ الا اللہ کا ورد تو کرتے ہیں لیکن اس کا معنی اور مفہوم نہیں جانتے، انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا تقاضا کیا ہے؟"