کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 124
اس فتنے کے نتائج 1۔ اموی خلافت میں حالات سنگین حد تک خراب ہو ئے، اور بہت سے لوگوں نے مقتول خلیفہ کے خون کا مطالبہ کر دیا، اسی طرح یزید بن ولید کے علاوہ بھی حکمرانی کے دعوے دار کھڑے ہو گئے، اس پر سرکاری فوج شام، عراق اور خراسان میں باغیوں کے خلاف لڑنے میں مصروف ہو گئی جس کی وجہ سے قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور بے چینی کے ساتھ انتشار پھیل گیا۔ 2۔ اس اندرونی خلفشار کی وجہ سے اموی خلافت مزید کمزور ہو گئی ؛ کیونکہ ولید بن یزید کے قتل ہونے کے بعد سات سال سے زیادہ اموی خلافت قائم نہیں رہ سکتی، چنانچہ اموی خلافت کے ختم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا؛ کیونکہ اموی خلافت خلفائے راشدین کے بعد سب سے مضبوط ترین خلافت اموی خلافت ہی تھی، اس میں جہاد اور دین کا بول بالا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اموی خلافت کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں : "بنو امیہ میں جہاد کا علم بلند و بالا تھا، ان کا کام ہی یہی تھا، ان کے دورِ خلافت میں مشرق و مغرب،بر و بحر چہار سو اسلام کا بول بالا تھا، انہوں نے کفر اور کفار کو ہیچ اور نیچ کر دیا تھا، مشرکین مسلمانوں کا نام سنتے ہی کانپنے لگتے تھے، مسلمان جس خطے کی جانب بھی رخ کرتے وہاں سے فتح یاب ہو کر واپس ہوتے، مسلمانوں کے معسکروں اور لشکروں میں علمائے کرام، اہل علم، اولیائے کرام اور تابعین عظام شامل ہوتے تھے، ہر فوجی مہم میں ان کے ساتھ ایسے لوگ ہوتے تھے جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح یاب فرماتا تھا"[1] ولید بن عبدالملک کے دور میں اسلامی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت تھی،
[1] البدایہ و النھایہ (9؍87)