کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 118
اسی طرح مجاہد بن جبر رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم بھی لوگوں کو اس فتنے سے دور رہنے کے لیے تلقین کرتے رہے، انہیں اجتماعیت قائم رکھنے کی ترغیب دیتے رہے، لیکن عراق کی اکثریت نے ان کے پند و نصائح پر کان نہیں دھرا،اور اس فتنے میں شریک ہو گئے۔ ابن اشعث کو کوفہ میں داخل ہونے کا بھی موقع مل گیا اور اکثر اہل کوفہ نے اس کی بیعت کر لی، چنانچہ ابن اشعث کے پیچھے لگنے والے بڑھتے چلے گئے اور حالات مزید بگڑتے گئے۔ ابن اشعث حجاج کے فوجیوں کو تسلسل سے پچھاڑتا رہا، جس وقت بھی حجاج کے فوجیوں سے ٹکراؤ ہوتا تو جیت ابن اشعث کی ہوتی، حتی کہ ابن اشعث کو 80 سے زائد معرکوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ عبدالملک بن مروان نے اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی بھی لی اور ابن اشعث کے سامنے یہ تجویز بھی پیش کی کہ حجاج کو عراق کی گورنری سے دستبردار کردیا جائے گا اور ابن اشعث کو اس کے مفتوحہ علاقوں پر گورنر بنا دیا جائے گا، لیکن ابن اشعث اور ان کے ساتھی اس تجویز پر متفق نہ ہوئے۔ اس کے بعد حجاج نے تاک کر اہل علم اور قرّائے کرام کی بٹالین پر حملے کرنے شروع کیے؛ حجاج کو معلوم تھا کہ ابن اشعث کے فوجیوں میں جوش، جذبہ اور ولولہ پیدا کرنے کے لیے اسی بٹالین کا بنیادی کردار ہے، حجاج اپنی فراست کی بنا پر اس بٹالین کو توڑنے میں کامیاب ہو گیا اور ابن اشعث کے فوجیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور تتربتر ہونا شروع ہو گئے، حتی کہ ابن اشعث نے بھاگ کر شاہ رتبیل کی امان حاصل کی۔ اس پر حجاج نے شاہ رتبیل کو دھمکی آمیز خط لکھ بھیجا کہ ابن اشعث کو میرے حوالے کر دے،شاہ رتبیل نے حجاج کا خط دیکھا اور ڈر کے مارے ابن اشعث کو حجاج کے حوالے کر دیا، تو راستے میں ابن اشعث نے اپنے آپ کو بلند محل سے گرا کر خود کشی کر لی، تو اس کا سر