کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 109
پھر بھی اپنے نظریات پر قائم رہی، پھر سیدنا علی بنفس نفیس ان کے پاس گئے اور ان کی غلط فہمی کی نشاندہی کی اور سمجھایا کہ میں نے لوگوں کو قرآن کے مقابلے میں ثالثی نہیں بنایا بلکہ انہیں قرآن مجید کے مطابق ثالثی کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اگر وہ قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں تو ہم اسے قبول کریں گے اور اگر وہ فیصلہ صحیح نہیں کرتے قرآن مجید سے متصادم کسی بھی فیصلے کا کوئی اعتبار نہیں،سیدنا علی نے ان سے لوگوں کے ساتھ مل کر چلنے کا مطالبہ کیا تو وہ با دل نخواستہ لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ پھر جب ثالثی کے عمل کا وقت قریب آیا تو انہوں نے سیدنا علی سے مطالبہ کیا کہ ابو موسی اشعری کو ثالثی کی مجلس میں مت بھیجیں،ان کے اس مطالبے کو سیدنا علی نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ میرا اہل شام کے ساتھ وعدہ ہو چکا ہے،اس پر انہوں نے پھر اپنی وہی پہلی بات رٹنا شروع کر دی جو ہر وقت ان کی زبانوں پر ہوتی ہے کہ: ﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١﴾ [الأنعام: 57] تو ان کے اس آیت کو بار بار دہرانے پر سیدنا علی نے فرمایا: "یہ بات تو حق ہے لیکن اس سے باطل چیز مقصود ہے" ۔ یہ سن کر وہ لوگ کوفہ سے نکلے اور بصرہ میں اپنے ساتھیوں سے رابطہ کیا اور نہروان پر جمع ہونے پر اتفاق کر لیا اور اپنا امیر عبداللہ بن وہب راسبی کو بنا کر ملت اسلامیہ سے بالکل الگ تھلگ ہو گئے۔ چونکہ پہلے سے رونما فتنے کے خاتمے کے لیے ثالثی کی مجلس منعقد ہی نہیں ہوئی تو علی نے چاہا کہ اہل شام کے پاس جا کر انہیں اطاعت گزاری پر آمادہ کریں،لیکن ادھر ان جاہل خارجیوں نے قتل و غارت شروع کر دیا اور عبد اللہ بن خباب کو قتل کر دیا،نیز ان کی لونڈی امید سے تھیں تو ان کا پیٹ چاک کر کے حمل گرا دیا، تو ایسے حالات میں سیدنا علی نے اپنے لشکر کا رخ خارجیوں کی جانب کر دیا، آپ نے ان سے ابن خباب کے قاتلوں کو