کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 102
متقی،پرہیز گار اور اہل جنت میں سے ہی کیوں نہ ہو "[1] ابن القیم رحمہ الله کہتے ہیں کہ: "اگر کسی برائی سے روکنے کا نتیجہ موجودہ برائی سے بھی سنگین ہو،اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں مزید برا ہو تو ایسی برائی سے روکنا جائز نہیں،چاہے اس برائی میں ملوث لوگوں کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند فرماتا ہو، چنانچہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت اس کی مثال ہے؛ کیونکہ بغاوت روزِ قیامت تک کے لیے برائیوں کی جڑ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ کرام نے ایسے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت چاہی تھی جو نماز کو وقت پر ادا نہیں کرتے، صحابہ کرام نے کہا تھا: اللہ کے رسول! ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں،جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں ) اور پھر یہ بھی فرمایا: (جس شخص کو اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے اور اس کی اطاعت سے اپنا ہاتھ مت کھینچے) اسلام میں رونما ہونے والے بڑے اور چھوٹے فتنوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے کے لیے یہی آشکار ہو گاکہ ان تمام کا سبب اسی حدیث کی مخالفت ہے، کہ برائی دیکھ کر صبر نہ کریں اور اس کے خاتمے کے لیے نکل پڑیں،جس سے پہلے سے بڑی برائی پیدا ہو جائے"[2] اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "حکمران کے خلاف بغاوت میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں اس پر شرعی نصوص کی بھر مار ہے نیز نو عمر چھوکروں کے کرتوتوں سے رونما ہونے والے تاریخی
[1] منہاج السنہ (4؍529) [2] اعلام الموقعین (3؍15)