کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 100
ایک مشہور مقولہ بھی ہے کہ: "تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کا مشہور و معروف موقف ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے چاہے ان میں ظلم ہی کیوں نہ پایا جاتا ہوں،جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ ڈھیروں احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کی وجہ سے حاصل ہونے والا نقصان حکمرانوں کے ظلم سے ہونے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، اس لیے دو نقصانات میں سے ہلکے کو برداشت کرنا بہتر ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسی خارجی اور باغیوں کی تحریک نہیں ہے جنہوں نے کسی حاکم کے خلاف بغاوت کی ہو اور ان کی تحریک کی وجہ سے پہلے سے زیادہ نقصانات پیدا نہ ہوئے ہوں،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شتر بے مہار کی طرح ہر ظالم اور باغی کے خلاف مسلح کاروائی کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی باغیوں سے ابتداء قتال کا حکم دیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ:
﴿وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْٓءَ اِلٰى اَمْرِ اللّٰهِ١ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ [الحجرات: 9]
’’اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کرا دو اور انصاف کیا کرو۔ کیونکہ اللہ