کتاب: ختم نبوت - صفحہ 7
کی ضرورت ہے، لیکن ہم یہاں تنبیہ کر دینا چاہتے ہیں ۔‘‘ (الصّارم المُنکِي في الرّد علی السُّبْکي : 318) خَاتَمُ النَّبِیِّینَ اور لَا نَبِيَّ بَعْدِي کا ایسا معنی ومفہوم غیر معتبر ہو گا، جو ائمہ اسلام کے متفقہ فہم کے خلاف ہو، کوئی وجہ ہی نہیں کہ اسے قبول کیا جائے۔ 6. قیامت کے نزدیک جب سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول ہو گا، تو آپ علیہ السلام شریعت محمدیہ علی صاحبہا والصلوٰۃ والسلام کا اتباع کریں گے، حالاں کہ وہ اللہ کے سچے نبی ہیں ، اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کی بعثت ممکن نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٔ نبوت در حقیقت اللہ ، رسول اور قرآن سے استہزا ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿قُلْ أَبِاللّٰہِ وَآیَاتِہٖ وَرَسُولِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِؤُونَ، لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ کَفَرْتُمْ بَّعْدَ إِیمَانِکُمْ﴾ (التّوبۃ : 65) ’’(نبی!) کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ استہزا کرتے تھے؟ عذر پیش نہ کرو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘ ثابت ہوا کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدنبوت کا دعوی کرے، وہ جھوٹا ہے، کیوں کہ اس کے پاس اپنے دعوی پر کوئی دلیل نہیں ، وہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے مخالف ہے، اس سے نبوت کی دلیل نہیں مانگی جائے گی، وہ کافر،مرتد ،کذاب اوردجال ہے، ہاں لوگوں پر اس کا دجل وفریب واضح کرنے کے لئے کہا جائے گا کہ اپنی نبوت پر دلیل پیش کرو۔ بطور فائدہ یاد رہے کہ انبیا کی عطر بیز دعوت اور متنبی کی بدبودار دعوت میں مشرقین کا بعد ہوتا ہے، یہ بات نہایت آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے او ر واقفان حال سمجھ لیتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ میں امتی نبی یا ظلی وبروزی نبی کا کوئی تصور نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم