کتاب: ختم نبوت - صفحہ 6
تَفْسِیرٍ مِّنْ تَفَاسِیرِہِمُ الْبَاطِلَۃِ إلَّا وَبُطْلَانُہٗ یَظْہَرُ مِنْ وُّجُوہٍ کَثِیرَۃٍ ۔ ’’مقصود یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ پہلے ایک رائے قائم کرتے ہیں ، پھراس پر قرآن کے الفاظ منطبق کر دیتے ہیں ، حالاں کہ ان سے پہلے صحابہ ، تابعین اور ائمہ مسلمین نے نہ یہ بات کہی ہوتی ہے اور نہ ایسی تفسیر کی ہوتی ہے ،ان لوگوں کی تفاسیر کا بطلان کئی وجوہ سے ظاہر و باہر ہے۔‘‘ (مَجموع الفتاوٰی : 13/358) علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (744ھ)لکھتے ہیں : لَا یَجُوزُ إِحْدَاثُ تَأْوِیلٍ فِي آیَۃٍ أَوْ سُنَّۃٍ لَّمْ یَکُنْ عَلٰی عَہْدِ السَّلَفِ وَلَا عَرَفُوہُ وَلَا بَیَّنُوہُ لِلْـأُمَّۃِ، فَإِنَّ ہٰذَا یَتَضَمَّنُ أَنَّہُمْ جَہِلُوا الْحَقَّ فِي ہٰذَا وَضَلُّوا عَنْہُ، وَاہْتَدٰی إِلَیْہِ ہٰذَا الْمُعْتَرِضُ الْمُسْْتَأْخِرُ، فَکَیْفَ إِذَا کَانَ التَّأْوِیلُ یُخَالِفُ تَأْوِیلَہُمْ وَیُنَاقِضُہٗ، وَبُطْلَانُ ہٰذَا التَّأْوِیلِ أَظْہَرُ مِنْ أَنْ یُّطْنَبَ فِي رَدِّہٖ، وَإِنَّمَا نُنَبِّہُ عَلَیْہِ بَعْضَ التَّنْبِیہِ ۔ ’’جائز نہیں کہ کسی آیت کی تفسیر یا سنت کی تفہیم میں ایسی رائے کا انتخاب کیا جائے، جو رائے سلف کے زمانے میں نہ ملتی ہو، نہ انہوں نے امت کے لئے اسے بیان کیاہو۔اس رائے کو درست ماننے کا مطلب ہے کہ سلف حق کو سمجھ نہیں پائے ، وہ گمراہ رہ گئے اور بعد میں آنے والا معترض ہدایت پا گیا، سلف کی مخالف تفسیر کا بطلان واضح ہے، اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، نہ اس کے تفصیلی رد