کتاب: ختم نبوت - صفحہ 55
فیصلہ پڑھ لیجئے، جو انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیرووں کے متعلق کیا۔ مسیلمہ کی طرف فوج روانہ کی گئی، اس سے جنگ ہوئی اور بالاخر مسیلمہ کو قتل کر دیا گیا،جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنے کا یہ فیصلہ صحابہ کے اجماع نے کیا تھا، کوئی صحابی اس فیصلے کی مخالفت کرتا نظر نہیں آیا۔
سیدنا وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
خَرَجَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ، قُلْتُ : لَـأَخْرُجَنَّ إِلٰی مُسَیْلِمَۃَ، لَعَلِّي أَقْتُلَہٗ فَأُکَافِیَٔ بِہٖ حَمْزَۃَ، قَالَ : فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَکَانَ مِنْ أَمْرِہٖ مَا کَانَ، قَالَ : فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَۃِ جِدَارٍ، کَأَنَّہٗ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرَّأْسِ، قَالَ : فَرَمَیْتُہٗ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُہَا بَیْنَ ثَدْیَیْہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ کَتِفَیْہِ، قَالَ : وَوَثَبَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْـأَنْصَارِ فَضَرَبَہٗ بِالسَّیْفِ عَلٰی ہَامَتِہٖ ۔
’’مسیلمہ کذاب کے فتنہ نے زور پکڑا، تو میرے دل میں خیال آیا کہ مسیلمہ کو میں قتل کر دوں گا، تاکہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بوجھ میرے سر سے اتر جائے۔ میں اس سے جنگ کرنے والے لشکر میں شامل ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے، یہ خاکستری اونٹ کی طرح گندم گوں تھا اور اس کے بال پراگندہ تھے۔ میں نے نیزہ اس کے سینے کے پار کردیا، پھر ایک انصاری نے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 4072)
اس واقعہ پر تدبر کیجئے، تو سمجھ آتی ہے کہ ختم نبوت کے عقیدہ پر اختلاف کی گنجائش ہی موجود نہیں ، چہ جائیکہ کسی نبی کی آمد کا امکان ہو۔