کتاب: ختم نبوت - صفحہ 5
صَوَابٌ أَوْ خَطَأٌ؛ فَکُلُّ مَنْ خَالَفَ السَّلَفَ الْـأَوَّلِینَ فَہُوَ عَلٰی خَطَأٍ، وَہٰذَا کافٍ ۔
’’اسلاف کی مخالفت سے بچ جائیے، اسلاف مخالف رائے میں اگر فضیلت ہوتی، تو ضرور وہ اس رائے کو اختیار کر لیتے۔
۔۔۔ جو کام متقدمین سے کسی طور ثابت نہ ہو، اس کا نہ کرنا ہی اولیٰ ہے، متاخرین، سلف سے ہٹ کر جس بات کو دلیل خیال کر لیتے ہیں ، وہ سرے سے دلیل ہوتی ہی نہیں ہے، کیوں کہ وہ اگر دلیل ہوتی، تو صحابہ وتابعین کے فہم سے کبھی مخفی نہ رہتی۔ سلف کا عمل کسی نص کے اصل مدعا سے معارض بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟سلف نے جو عمل نہ کیا ہو، متاخرین وہ عمل کریں گے تو اس سے اجماع کی مخالفت لازم آئے گی اور اجماع کا ہر مخالف خطا پر ہوتا ہے۔امت محمدیہ علی صاحبہا والصلوٰۃ والسلام کبھی بھی گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی۔ اسلاف نے جس کام کو سر انجام دیا ہے یا جس سے رک گئے ہیں ، وہی معتبر سنت اور راہ ہدایت ہے،ہر عمل میں درستی اور خطا کا احتما ل ہوتا ہے، لیکن سلف کے مخالف عمل کے خطا ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔‘‘
(المُوَافقات في أصول الأحکام : 3/280۔ 281)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)لکھتے ہیں :
اَلْمَقْصُودُ أَنَّ مِثْلَ ہٰؤُلَائِ اعْتَقَدُوا رَأْیًا ثُمَّ حَمَلُوا أَلْفَاظَ الْقُرْآنِ عَلَیْہِ وَلَیْسَ لَہُمْ سَلَفٌ مِّنْ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِإِحْسَانٍ وَّلَا مِنْ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ لَا فِي رَأْیِہِمْ وَلَا فِي تَفْسِیرِہِمْ وَمَا مِنْ