کتاب: ختم نبوت - صفحہ 42
لَقَدْ کَانَ فِیمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الْـأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ یَّکُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ، فَإِنَّہٗ عُمَرُ ۔ ’’پہلی امتوں میں مُحَدَّث ہو گزرے ہیں، اگر میری امت میں ایساکوئی ہوا، تو عمر ہوں گے۔‘‘ (صحیح البخاري : 3689، ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشۃ) ٭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : مَا کَانَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَفِي أُمَّتِہٖ مُعَلَّمٌ أَوْ مُعَلَّمَانِ، فَإِنْ یَّکُنْ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ مِّنْھُمْ، فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ۔ ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا، جس کی امت میں ایک دو معلَّم نہ ہوئے ہوں۔ اگر میری امت میں کوئی معلم ہوا، تو وہ عمر بن خطاب ہوں گے۔‘‘ (السّنۃ لابن أبي عاصم : 1297، وسندہٗ حسنٌ) عبدالرحمن بن ابی الزناد ’’موثق، حسن الحدیث‘‘ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ھُوَ ثِقَۃٌ عِنْدَ الْجُمْہُورِ، وَتَکَلَّمَ فِیہِ بَعْضُھُمْ بِمَا لَا یَقْدَحُ فِیہِ ۔ ’’یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، بعض نے ان پرکلام کیا ہے، جو موجب قدح نہیں۔‘‘ (نتائج الأفکار : 304) یاد رہے کہ ’’مُحَدَّث‘‘، ’’مُکَلَّم‘‘ اور ’’مُعَلَّم‘‘ کا ایک ہی مطلب ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر اس امت میں کوئی ’’مُحَدَّث‘‘، ’’مُکَلَّم‘‘ اور ’’مُعَلَّم‘‘ ہوتا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے، اس کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ محدث ہونے کا شرف حاصل نہ کر سکے، تو پھر کوئی اور بھی حاصل نہیں کر سکتا۔