کتاب: ختم نبوت - صفحہ 3
4. احادیث مبارکہ میں نزول عیسیٰ علیہ السلام ، امام مہدی رحمہ اللہ کے ظہور، خلفا حتی کہ مجددین امت تک کا ذکر ہوا ہے، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ سب نسبتاً غیر اہم معاملات تو ذکر کر دئیے جائیں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وجود نبوت جیسا اہم اور مہتم بالشان معاملہ بیان ہی نہ کیا گیاہو؟ بلکہ لَا نَبِيَّ بَعْدِي کی تصریح فرما کر آگاہ کر دیا گیا ہو کہ اب کسی نبی کی قطعا کوئی گنجائش باقی نہیں ۔
5. اسلاف امت، صحابہ وتابعین کا اجماع بھی اس بات سے انکاری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آئے، زبیر بن عدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أَتَیْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، فَشَکَوْنَا إِلَیْہِ مَا نَلْقٰی مِنَ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ : اِصْبِرُوا، فَإِنَّہٗ لَا یَأْتِي عَلَیْکُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَہٗ شَرٌّ مِّنْہُ، حَتّٰی تَلْقَوْا رَبَّکُمْ، سَمِعْتُہٗ مِنْ نَّبِیِّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ہم نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حجاج بن یوسف کے سخت گیر رویے کی شکایت کی، تو انہوں نے فرمایا : صبر کیجئے، اب آپ پر ہر آنے والا دور گزرے دورکی نسبت زیادہ برا ہو گا، یہاں تک کہ آپ اپنے رب سے جا ملیں گے، یہ بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 7068)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ جو شخص زمانہ نبوت کے جتنا قریب ہو گا، دین میں اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ بہتر ہوں گے، ان کا دینی علم وفہم بھی بہتر ہو گا، اسی لئے زمانہ نبوی اور بعد کے تین زمانوں کو خیر القرون کہا گیا ہے، خیر کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے دین کا جو معنی ومفہوم سمجھا، وہی حق اور سچ ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ (179ھ) فرماتے ہیں :