کتاب: ختم نبوت - صفحہ 230
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے امیوں میں ایک رسول بھیجا، جو ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے، یہ کتاب و حکمت کی تعلیم ان امیوں کے بعد آنے والوں کے لئے بھی ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف امیوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے، بلکہ آپ پوری انسانیت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ، فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَّنَذِیرًا وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ﴾(سبأ : 28) ’’ ہم نے آپ کو ساری انسانیت کے لئے بشیر ونذیر بنا کر مبعوث کیا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں ۔‘‘ پوری انسانیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور بعد والے سبھی لوگ شامل ہیں ، لہٰذا اس آیت کا معنی ہوگا کہ کتاب وحکمت کی تعلیم امیوں اور بعد والوں سب کے لئے ہے۔ اس کا یہ مطلب لینا کہ بعد والوں کے لئے الگ سے نبی مبعوث ہوگا، قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے، اسی طرح خاتم النبیین والی آیت، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع امت اور فطرت کے بھی خلاف ہے، لہٰذا یہ آیت کریمہ ختم نبوت پر زبردست دلیل ہے۔ 10. فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْ بَّعْدِہٖ رَسُولًا﴾(المؤمن : 34) ’’تم کہتے ہو کہ یوسف علیہ السلام کے بعد اللہ کبھی رسول بھیجے گا ہی نہیں ۔‘‘ یہ سمجھنا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام آخری نبی ہیں ، واقعی کفریہ عقیدہ ہے، کیوں کہ یہ عقیدہ اس