کتاب: ختم نبوت - صفحہ 227
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام عالم کے لئے اور قیامت تک کے عام لوگوں کے لئے ہے، پس آپ کی آمد سے تمام ان لوگوں پر حجت قائم ہوچکی، جہاں جہاں آپ کی دعوت پہنچی ، عمومی دعوت کی ادلہ بیان ہوچکی ہیں ، جب آپ کے آنے سے تمام عالم پر حجت پوری ہوچکی تو عذاب آنے کے لئے کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔‘‘
(ختم نبوت ازمحدث گوندلوی، ص 65۔ 66)
6. فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ﴾(البقرۃ : 4)
’’وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘
اس میں آخرت کا معنی گزشتہ وحی کیا جاتا ہے، جو کہ بالکل غلط اور قرآنی تصریحات، احادیث، اجماع، لغت اور عقل کے خلاف ہے۔
قرآن میں جہاں بھی آخرت کا ذکر ہوا، تو معنی روز قیامت ہی کیا گیا ہے، مثلا
﴿وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَۃَ لَہِيَ الْحَیَوَانُ﴾(العَنکبوت : 64)
’’آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔‘‘
7. فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ﴾(العَنکبوت :28)
’’ان کی اولاد میں ہم نے نبوت اور کتا ب کو رکھ دیا۔‘‘
اس آیت سے استدلال لیا جاتا ہے کہ نبوت ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاد میں رکھ دی گئی ، لہٰذا نبوت جاری ہے۔
یہ استدلال صریح باطل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ نبی آتے رہیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ نبی