کتاب: ختم نبوت - صفحہ 198
پہنچی ہے۔ فرمایا : آپ میرے سامنے آنے سے اجتناب کیجئے گا، میں وہاں سے چلا آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے فتنہ نے زور پکڑا، تو دل میں خیال آیا کہ مسیلمہ کو میں قتل کروں گا، تاکہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بوجھ میرے سر سے اتر جائے۔ میں اس سے جنگ کرنے والے لشکر میں شامل ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے، جو خاکستری اونٹ کی طرح گندم گوں تھا اور اس کے بال پراگندہ تھے۔ میں نے اسے دیکھا، تو اپنا نیزہ اس کے سینے میں پیوست کر دیا اور اس کا سینہ پیٹھ تک چِر گیا، پھر ایک انصاری نے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 4072)
1. امام سحنون رحمہ اللہ (240ھ)فرماتے ہیں :
مَنْ تَنَبَّأَ وَزَعَمَ أَنَّہٗ یُوحٰی إِلَیْہِ اسْتُتِیبَ، فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ ۔
’’جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اس کی طرف وحی کی جاتی ہے، اس سے توبہ کروائی جائے گی، اگر کر لے تو (بہتر) ورنہ قتل کر دیا جائے۔‘‘
(النّوادر والزّیادات لأبي زید قیرواني : 14/532)
2. علامہ عبد القاہر بغدادی رحمہ اللہ (429ھ) لکھتے ہیں :
قَالُوا بِتَکْفِیرِ کُلِّ مُتَنَبٍّ سَوَائً کَانَ قَبْلَ الْإِسْلَامِ کَزَرَاذَشْتْ وَیَوَدْاَسَفْ وَمَانِي وَدِیصَانَ وَمَزْفَیُورَ وَمَزْدَکَ أَوْ بَعْدَہٗ کَمُسَیْلَمَۃَ وَسَتْجَارِحَ وَالْـأَسْوَدَ ثُمَّ یَزِیدَ الْعَنْسِيِّ وَسَائِرِ مَنْ کَانَ بَعْدَہُمْ مِنَ الْمُتَنَبِّینَ ۔