کتاب: ختم نبوت - صفحہ 192
الْمَعْنٰی أَنَّہٗ لَا یَأْتِي نَبِيٌّ بَّعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ أُمَّتِہٖ ۔
’’ابراہیم یا عمر رضی اللہ عنہما اگر نبی بن جاتے، تب بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع ہوتے، جیسا کہ عیسی علیہ السلام ، خضر علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام ہیں ۔ تب بھی یہ اللہ کے فرمان ﴿وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ﴾کے منافی نہ ہوتا، تب اس کا معنی یہ کیا جاتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا، جو ان کی نبوت کو منسوخ کر دے اور ان کی امت سے نہ ہو۔‘‘
اب یہاں کلمہ لَوْ ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے یا عمر نبی ہوتے، تو معنی یوں ہوتا، بصورت دیگر معنی وہی رہے گا کہ کوئی بھی نبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آئے گا، اب کسی نبی کا آنا ختم نبوت کے منافی ہے۔
اس سے پچھلی عبارت میں وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ابراہیم کا زندہ رہ کر نبی ہونا ہی ختم نبوت کے منافی تھا، لیکن بالفرض والمحال ایسا ہوجاتا، تو آیت کا معنی یوں کر لیا جاتا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ کی دوسری عبارات ملاحظہ ہوں ، لکھتے ہیں :
دَعْوَی النُّبُوَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّنَا کُفْرٌ بِالْإِجْمَاعِ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی بالاجماع کفر ہے۔‘‘
(شرح الفقہ الأکبر، ص 380)
مزید لکھتے ہیں :
قَدْ صَرَّحَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا بِأَنَّہٗ لَوِ ادَّعٰی أَحَدٌ النُّبُوَّۃَ فَطَلَبَ مِنْہُ شَخْصٌ الْمُعْجِزَۃَ کَفَرَ ۔
’’ہمارے بعض علما نے صراحت کی ہے کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کسی شخص