کتاب: ختم نبوت - صفحہ 183
ذٰلِکَ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔ وَأَمَّا کَوْنُہٗ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ مَبْعُوثًا إِلَی الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ، فَالْمُرَادُ الْمُکَلَّفُ مِنْہُمْ، وَہٰذَا یَتَنَاوَلُ الْإِنْسَ وَالْجِنَّ وَالْمَلَائِکَۃَ، فأَمَّا الْـأَوَّلَانِ فَبِالْإِجْمَاعِ ۔ ’’فلسفیوں کا ایک گروہ نبوت کو کسبی قرار دیتاہے۔ ہروی کی کتاب ’’ذم الکلام‘‘ میں لکھا ہے کہ لوگوں نے امام ابن حبان رحمہ اللہ پر زندیقیت کا فتوی لگایا تھا اور ان کابائیکاٹ کر دیا تھا۔ ان کے بقول ابن حبان رحمہ اللہ کہتے تھے کہ نبوت علم اور عمل کا نام ہے، خلیفہ کو ان کا یہ فتوی بتایا گیا، تو انہیں سمر قند کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔‘‘ میں نہیں مانتا کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہوگی کہ جس کو علم اور عمل حاصل ہو جائے، وہ نبی بن سکتا ہے، علم اور عمل تو نبوت کا آلہ ہیں ، اللہ کبھی عالم وعامل کو نبوت عطا کر دیتے ہیں اور کبھی نہیں کرتے۔ (اللہ زیادہ جانتا ہے کہ اس نے کسے رسول بنانا ہے۔) اور نبوت کا عطا کیا جانا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی بات ہے۔ اب تو دلیل قطعی سے معلوم ہوچکا کہ نبوت منقطع ہے۔ واللہ اعلم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، مطلب یہ کہ جو شریعت کی مکلف مخلوقات ہیں ، جن، انسان اور فرشتے۔ انسانوں اور جنوں کا مکلف ہونا تو اتفاقی مسئلہ ہے۔‘‘ (الغیث الہَامع شرح جمع الجَوامع : 765،766) حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) لکھتے ہیں : قُلْتُ : وَلِقَوْلِہٖ ہٰذَا مَحْمَلٌ سَائِغٌ إِنْ کَانَ عَنَاہُ، أَيْ عِمَادَ النُّبُوَّۃِ الْعِلْمُ وَالْعَمَلُ، لِأَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُؤْتِ النُّبُوَّۃَ وَالْوَحْيَ إِلَّا مَنِ اتَّصَفَ