کتاب: ختم نبوت - صفحہ 18
تخصیص نہیں کہ وہ اصلی ہو یا ظلی وبروزی ، تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ بالفرض اگر غیر تشریعی نبوت کا وجود ہو، تو وہ بھی ختم ہے۔ اگر اس کا وجود ہی نہیں ، تو وہ پہلے سے ہی معدوم ہے، پھر اس کے ختم ہونے کا کوئی معنی نہیں ۔ احادیث صحیحہ اور اجماع امت اس معنی کی تائید کرتا ہے۔
(ختم نبوت از محدث گوندلوی، ص 17۔18)
اگر کوئی کہے کہ خاتم النبیین میں الف لام استغراق کے لیے نہیں ، بلکہ ایسا الف لام ہے، جیسے ﴿وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ﴾میں ہے۔ یہ الف لام استغراقی نہیں ، کیوں کہ سارے نبی قتل نہیں ہوئے۔
تو عرض ہے کہ جمع مذکر سالم پرا گر الف لام آئے، تو دراصل وہ جمیع افراد کے لیے ہی ہوتا ہے، جیسے رب العالمین کا معنی ہے : سارے جہانوں کا رب۔
اگر قرینہ پایا جائے، تو اس سے بعض افراد مراد لیے جا سکتے ہیں ، آیت ﴿وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ﴾ میں تین قرینے ہیں ، جن سے لفظ ’’النبیین‘‘ کی تخصیص ہو جاتی ہے:
1. لفظ قتل، کیونکہ قرآن مجید میں بعض نبیوں کے قتل کا ذکر ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ﴾ ’’ایک فریق کو تم قتل کرتے تھے۔‘‘
حقیقت بھی یہی ہے کہ بعض نبی قتل ہوئے ہیں ۔ یہ قرینہ حسی اور پہلا لفظی ہے۔
2. یہود کا فاعل ہونا، کیوں کہ یہود صرف انہی نبیوں کو قتل کر سکتے تھے، جو نبی ان میں مبعوث ہوئے۔
3. بعض انبیا کے غیر مقتول ہونے کا ذکر۔